27 ستمبر، 2016

دھوپ میں سائباں مل گیا رات میں چاندنی مل گئی

غزل
دھوپ میں سائباں مل گیا رات میں چاندنی مل گئی
آپ کیا مل گئے ہیں مجھے جیسے ہر اک خوشی مل گئی

کتنی تاریک ہر رات تھی ہر طرف غم کی برسات تھی
آپ آئے تو ایسا لگا جیسے اک زندگی مل گئی

آرزو جو مچلتی رہی ، دل میں خوہش جو پلتی رہی
جو تمنا تھی دل میں میرے ہاں مجھے بس وہی مل گئی

کتنا پر کیف و جاں بخش ہے جانِ جاناں تصور تیرا
سانس کو راگنی مل گئی اور لبوں کو ہنسی مل گئی

میری قسمت کے گل کھل گئے وہ نذیریؔ مجھے مل گئے 
اور کیا چاہئے جب مجھے آپ کی دوستی مل گئی

کوئی تبصرے نہیں: