غزل
دھوپ میں سائباں مل گیا رات میں چاندنی مل گئی
آپ کیا مل گئے ہیں مجھے جیسے ہر اک خوشی مل گئی
کتنی تاریک ہر رات تھی ہر طرف غم کی برسات تھی
آپ آئے تو ایسا لگا جیسے اک زندگی مل گئی
آرزو جو مچلتی رہی ، دل میں خوہش جو پلتی رہی
جو تمنا تھی دل میں میرے ہاں مجھے بس وہی مل گئی
کتنا پر کیف و جاں بخش ہے جانِ جاناں تصور تیرا
سانس کو راگنی مل گئی اور لبوں کو ہنسی مل گئی
میری قسمت کے گل کھل گئے وہ نذیریؔ مجھے مل گئے
اور کیا چاہئے جب مجھے آپ کی دوستی مل گئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں