27 ستمبر، 2016

حیا سے گردن جھکادیا تو غزل ہوئی

غزل
حیا سے گردن جھکادیا تو غزل ہوئی
کہ اس نے جب مسکرادیا تو غزل ہوئی

جھکایاآنچل تو چاند بدلی میں چھپ گیا
نقاب رخ سے اٹھا دیا تو غزل ہوئی

غزل کو کیا پوچھتے ہو ہم سے غزل ہے کیا
کسی نے جلوہ دکھادیا تو غزل ہوئی

نہ تھے شرابی مگر کسی کی کرم نوازی
نگاہ و لب سے پلادیا تو غزل ہوئی

شعور فن مل گیا نذیریؔ ہمیں بھی آخر
کسی کو دل میں بٹھا دیا تو غزل ہوئی

کسی کی یادوں میں کھوگئے ہیں ہم اے نذیریؔ
جب ہم نے خود کو بھلا دیا تو غزل ہوئی

کوئی تبصرے نہیں: