غزل
حیا سے گردن جھکادیا تو غزل ہوئی
کہ اس نے جب مسکرادیا تو غزل ہوئی
جھکایاآنچل تو چاند بدلی میں چھپ گیا
نقاب رخ سے اٹھا دیا تو غزل ہوئی
غزل کو کیا پوچھتے ہو ہم سے غزل ہے کیا
کسی نے جلوہ دکھادیا تو غزل ہوئی
نہ تھے شرابی مگر کسی کی کرم نوازی
نگاہ و لب سے پلادیا تو غزل ہوئی
شعور فن مل گیا نذیریؔ ہمیں بھی آخر
کسی کو دل میں بٹھا دیا تو غزل ہوئی
کسی کی یادوں میں کھوگئے ہیں ہم اے نذیریؔ
جب ہم نے خود کو بھلا دیا تو غزل ہوئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں