غزل
سر پہ بادل پھول کا پیروں میں مخمل چاہیئے
فطرتِ انسان کو لطفِ مسلسل چاہیئے
سرمئ موسم بنانے کے لئے اس دھوپ کو
کچھ نہیں بس آپ کی آنکھوں میں کاجل چاہئے
داغِ عصیاں اپنے دامن سے چھڑانے کے لئے
رونے والے آنسوؤں سے شہر جل تھل چاہیئے
پھول کوئی خشک صحرا میں کھلانا ہو اگر
پیار کی سوغات کا بس ایک ہی پل چاہیئے
کتنا جھلسایا نذیریؔ کو ستم کی دھوپ نے
جاں بلب کے سر پہ اب زلفوں کا بادل چاہیئے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں