ہوگئی تھی میری دنیا بھی کہیں گم جیسے
آئے تم بحر خموشی میں تلاطم جیسے
شہر در شہر پھرا ہوں تری تصویر لئے
خوبرو دیکھے نہیں ہم نے کہیں تم جیسے
صبح کی ٹھنڈی ہوا چھوکے گذرتی ہے مجھے
ایسا لگتا ہے کہ ہو تیرا تکلم جیسے
چوکڑی مارتے چلتے ہو ہرن کے مانند
مسکراتے ہو تو کلیوں کے تبسم جیسے
گلبدن جیسے کہ شمشاد و صنوبر کا بدن
اور آواز کہ کوئل کا ترنم جیسے
اتنی شوخی یہ نذیری میں کہاں سے آئی
پہلے رہتے تھے ہر اک وقت وہ گم صم جیسے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں