7 جون، 2018

ہوگئی تھی میری دنیا بھی کہیں گم جیسے


ہوگئی تھی میری دنیا بھی کہیں گم جیسے
آئے تم بحر خموشی میں تلاطم جیسے 

شہر در شہر پھرا ہوں تری تصویر لئے
خوبرو دیکھے نہیں ہم نے کہیں تم جیسے

صبح کی ٹھنڈی ہوا چھوکے گذرتی ہے مجھے
ایسا لگتا ہے کہ ہو تیرا تکلم جیسے

چوکڑی مارتے چلتے ہو ہرن کے مانند
مسکراتے ہو تو کلیوں کے تبسم جیسے

گلبدن جیسے کہ شمشاد و صنوبر کا بدن
اور آواز کہ کوئل کا ترنم جیسے

اتنی شوخی یہ نذیری میں کہاں سے آئی
پہلے رہتے تھے ہر اک وقت وہ گم صم جیسے

مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: