مرے حالات کی بربادیاں کچھ اور کہتی ہیں
مگر منصف کی جانبداریاں کچھ اور کہتی ہیں
یہاں کچھ اور کہتی ہیں وہاں کچھ اور کہتی ہیں
جناب شیخ کی بیتابیاں کچھ اور کہتی ہیں
پیام صلح لے کر وہ مرے پاس آئے ہیں لیکن
پسِ پردہ ہوئی تیاریاں کچھ اور کہتی ہیں
زباں پر بات ہے انسانیت اور جاں نثاری کی
بتان دہر کی عیاریاں کچھ اور کہتی ہیں
زمانہ روز کہتا ہے کہ بوڑھا ہوگیا لیکن
جب آؤں گھر میں اپنے بیٹیاں کچھ اور کہتی ہیں
ہزاروں غم انھیں سسرال میں درپیش ہوتے ہیں
مگر مجھ سے مری شہزادیاں کچھ اور کہتی ہیں
بچھڑنے کا انھیں کچھ غم نہیں میں مان لیتا ہوں
مگر آنکھوں میں اتری سرخیاں کچھ اور کہتی ہیں
زمانہ کہہ رہا ہے عمر باقی ہے مزے کرلو
مگر بڑھتی ہوئی پرچھائیاں کچھ اور کہتی ہیں
گلے اک دن لگا کر باپ کو نزدیک سے دیکھو
کئی چہروں پہ اکثر جھریاں کچھ اور کہتی ہیں
نذیری سے اگر پوچھو تو سب کچھ ٹھیک کہتے ہیں
مگر اشعار کی گہرائیاں کچھ اور کہتی ہیں
مسیح الدین نذیری
9321372295
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں