14 اکتوبر، 2020

اس قدر بھی نہ کبھی آپ کا معیار گرے

 ۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس قدر بھی نہ کبھی آپ کا معیار گرے

آپ کی ذات پہ کیچڑ سرِ بازار گرے


کبھی اس پار گرے ہم کبھی اس پار گرے

اپنی لَے چھوڑدی جب ہم نے کئی بار گرے


جان جاتی ہے چلی جائے مگر ناممکن

جاکے زردار کے در پر کوئی خود دار گرے


فن سے تہذیب کی تعمیر ہے ممکن لیکن 

شرط لازم ہے نہ تہذیب سے فنکار گرے


ہم نے غیرت کا کوئی فرض نبھایا بھی نہیں 

اور امید ہے یہ ظلم کی دیوار گرے


اے خدا غیب سے آثار کوئی نصرت کے

جتنے اب تک نظر آتے تھے وہ آثار گرے


خود پسندی کے ترے شہر میں دیکھا اکثر

بھیڑ اتنی کہ کئی آئینہ بردار گرے


اپنے اسلاف کی غیرت کا بھرم تو رکھو

شیخ اتنا بھی نہ جھک جاؤ کہ دستار گرے


ہم لڑے آخری فوجی کی طرح میداں میں

اور پھر تھک گئے ہم اتنے کہ ناچار گرے


حوصلے پھر سے جگا خود میں کچھ ایسا جس سے

پھر سے قدموں میں ترے رفعتِ کہسار گرے


زندگی تھی تو تمنائیں بہت کچلی تھیں 

پھول اب آکے مری قبر پہ بیکار گرے


لوگ گر کر بھی سنبھل جاتے ہیں اس دنیا میں 

ہم سنبھلنے کے ارادے سے کئی بار گرے


صبح دم پڑھئے جو اخبار تو وہ خبریں ہیں 

کپکپی دل پہ ہو اور ہاتھ سے اخبار گرے


صرف رسوائیاں دیکھی ہیں نذیری ہم نے

جب سے ان ہاتھوں سے میدان میں ہتھیار گرے


مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: