12 اگست، 2016

کوئی جب اپنے بچے کو کھلاتا ہے تو روتا ہوں



غزل
کوئی جب اپنے بچے کو کھلاتا ہے تو روتا ہوں
میری بیٹی کا بچپن یاد آتا ہے تو روتا ہوں
وہ پہلی بار کا ہنسنا وہ پہلی بار کا کچھ کہنا
کوئی آکر کے جب مجھ کو بتاتا ہے تو روتا ہوں
کہیں پر اپنے بچے کو سلانے کے ارادے سے
کوئی پیارسے لوری گنگناتا ہے تو روتا ہوں
میری بچی کے ننھے پاؤں کب پہلی دفعہ اٹھے
وہ منظر ذہن میں جب جگمگاتا ہے تو روتا ہوں
کھلاتا گود میں تجھ کو تو مجھ سے کھیلتی رہتی
میری بیٹی یہ ارماں جب ستاتا ہے تو روتا ہوں
میری انگلی پکڑ کر کس طرح چلتی میری بیٹی
یہی احساس جب جب جاگ جاتا ہے تو روتا ہوں
میں گھر میں آتا بیٹی دوڑ کر بانہوں میں آجاتی
 تصور میرا جب بانہیں بڑھاتا ہے تو روتا ہوں
تصور کے گلستانوں سے دنیائے حقیقت تک
کوئی جب کھینچ کر کے مجھ کو لاتا ہے تو روتا ہوں
میرا جب دوست کوئی اپ نے بچے کے لیے مجھ کو
کھلونوں کی دکاں پر لے کے جاتا ہے تو روتا ہوں
کسی معصوم حرکت سے کسی ننھی شرارت سے
کوئی بچہ کسی کو جب ہنساتا ہے تو روتا ہوں
کوئی  معصوم بچہ شرط رکھ کر کے باپ سے اپنے
کبھی جب دوڑتا ہے جیت جاتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ کبھی انگلی پکڑ کر اپنے والد کی
یونہی کچھ کہتے کہتے مسکراتا ہے تو روتا ہوں
مسرت کے کسی موقع پہ جب اسکول کے اندر
کوئی بچہ کہیں جب گیت گاتا ہے تو روتا ہوں
اچانک چلتے چلتے راہ میں چھپ کر کوئی بچہ
جب اپنے باپ کا دل آزماتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ سواری کے لیے معصوم خواہش سے
جب اپنے باپ کو گھوڑا بناتا ہے تو روتا ہوں
جب اپنے توتلے پن سے کسی بھی چیز کی خاطر
کوئی بچہ کبھی جب ضد پہ آتا ہے تو روتا ہوں
کسی بچے کو جب بھی دیکھتا ہوں ساتھ والد کے
تو میرا شوق میرا دل لبھاتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ کبھی ناؤ کاغذ کی بناتا ہے
اسے بارش کے پانی میں بہاتا ہے تو روتا ہوں
میری بیٹی جو میرے پاس ہوتی وہ بھی یوں کرتی
تصور جب یہی منظر گھماتا ہے تو روتا ہوں
میری بیٹی میرا سب کچھ ہے میرے دل کا ٹکڑا ہے
نہ ہونے کا مگر احساس چھاتا ہے تو روتا ہوں
سوا تیرے میری بیٹی مرے پاس ایک دنیا ہے
مجھے تیری کمی کا غم ستاتا ہے تو روتا ہوں
میری بچی تیرا معصوم بچپن چھن گیا مجھ سے
یہی احساس میرا  منہ چڑھاتا ہے تو روتا ہوں
تو میرے پاس آکر کھیلتی ہے خواب میں میرے
اسی دم نیند سے کوئی جگاتا ہے تو روتا ہوں
میرے حالات نے مجھ سے الگ کردی میری بیٹی
وہ منظر ذہن کے پردے پہ چھاتا ہے تو روتا ہوں
مگر میں کیا کروں میں بے بسی کا ایک پیکر ہوں
میرے سینے میں دل ہے دل رُلاتا ہے تو روتا ہوں
نذیری کیا کروں  بیٹی ہے میری  میرا حصہ ہے
کہ میرے خون کا جب اس سے ناتا ہے تو روتا ہوں


(مسیح الدین نذیری معروفی)
9321372295


کوئی تبصرے نہیں: