غزل
باہر کبھی حصار سے آنے نہیں دیا
آنکھوں کو ہم نے اشک بہانے نہیں دیا
میراث عشق ہے تری یادوں کا یہ ہجوم
خود سے گئی رتوں کو بھلانے نہیں دیا
میں ماہتاب ہوتا تری بزم کا مگر
خودداریوں نے سر کو جھکانے نہیں دیا
کیسے نہ ہو اداس ترے ساتھ عندلیب
جب اس کو اپنے ڈھنگ سے گانے نہیں دیا
راہ غلط پہ جانے کو بیٹی نکل پڑی
رزق حلال نے اسے جانے نہیں دیا
منزل تھی میرے پاس میں منزل کے پاس تھا
پر دوستوں نے ہوش میں آنے نہیں دیا
تھا آندھیوں میں زور نذیری بہت مگر
گھر باپ کی دعا نے گرانے نہیں دیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں