24 ستمبر، 2016

باہر کبھی حصار سے آنے نہیں دیا

غزل

باہر کبھی حصار سے آنے نہیں دیا
آنکھوں کو ہم نے اشک بہانے نہیں دیا

میراث عشق ہے تری یادوں کا یہ ہجوم
خود سے گئی رتوں کو بھلانے نہیں دیا

میں ماہتاب ہوتا تری بزم کا مگر
خودداریوں نے سر کو جھکانے نہیں دیا

کیسے نہ ہو اداس ترے ساتھ عندلیب
جب اس کو اپنے ڈھنگ سے گانے نہیں دیا

راہ غلط پہ جانے کو بیٹی نکل پڑی 
رزق حلال نے اسے جانے نہیں دیا

منزل تھی میرے پاس میں منزل کے پاس تھا
پر دوستوں نے ہوش میں آنے نہیں دیا

تھا آندھیوں میں زور نذیری بہت مگر
گھر باپ کی دعا نے گرانے نہیں دیا

کوئی تبصرے نہیں: