25 ستمبر، 2016

ایسی ہو جائیگی حالت مجھے معلوم نہ تھا

غزل

ایسی ہو جائیگی حالت مجھے معلوم نہ تھا
راکھ کردیگی یہ چاہت مجھے معلوم نہ تھا

تذکرہ تھا میرا ہر بزم میں خوشبو کی طرح
مجھ کو لے ڈوبے گی شہرت مجھے معلوم نہ تھا 

جشن میں نے بھی منایا تھا تجھے پانے کا
موت ہے جشنِ مسرت مجھے معلوم نہ تھا

میں نے سوچا تھا تیرا ساتھ خوشی دیگا مجھے
خود فریبی کی ہے جنت مجھے معلوم نہ تھا

پی لیا میں نے بہت شوق سے اس کو لیکن 
زہر ہے جامِ محبت مجھے معلوم نہ تھا

اک فقط عرضِ تمنا پہ ستم برسیں گے
زخم دیگی میری قسمت مجھے معلوم نہ تھا

ناز تھا مجھ کو بھی قسمت پہ نذیریؔ لیکن
چاندنی میں ہے تمازت مجھے معلوم نہ تھا

کوئی تبصرے نہیں: