غزل
ایسی ہو جائیگی حالت مجھے معلوم نہ تھا
راکھ کردیگی یہ چاہت مجھے معلوم نہ تھا
تذکرہ تھا میرا ہر بزم میں خوشبو کی طرح
مجھ کو لے ڈوبے گی شہرت مجھے معلوم نہ تھا
جشن میں نے بھی منایا تھا تجھے پانے کا
موت ہے جشنِ مسرت مجھے معلوم نہ تھا
میں نے سوچا تھا تیرا ساتھ خوشی دیگا مجھے
خود فریبی کی ہے جنت مجھے معلوم نہ تھا
پی لیا میں نے بہت شوق سے اس کو لیکن
زہر ہے جامِ محبت مجھے معلوم نہ تھا
اک فقط عرضِ تمنا پہ ستم برسیں گے
زخم دیگی میری قسمت مجھے معلوم نہ تھا
ناز تھا مجھ کو بھی قسمت پہ نذیریؔ لیکن
چاندنی میں ہے تمازت مجھے معلوم نہ تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں