غزل
جشن چاہت کا منائیں گے اگر آؤگے
راہ پلکوں سے سجائیں گے اگر آؤگے
مجھ پہ گذری ہیں شبِ ہجر میں جو جو باتیں
اپنی ہر بات سنائیں گے اگر آؤگے
کتنے گذرے ہیں ستم کتنے سہے ہیں صدمے
دل کا ہر زخم دکھائیں گے اگر آؤگے
جو بھی قسمیں تھیں وفا کی وہ کریں گے پوری
اپنا ہر وعدہ نبھائیں گے اگر آؤگے
جس کے پینے سے نہ تا عمر کبھی ہوش آئے
جام ہم ایسا پلائیں گے اگر آؤگے
ساری دنیا کی خوشی سارے زمانے کی ہنسی
تیری دنیا میں بسائیں گے اگر آؤگے
جو نذیریؔ نے لکھی ہے شبِ فرقت میں غزل
وہ غزل شوق سے گائیں گے اگر آؤگے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں