16 اکتوبر، 2016

اگر سر پر پریشانی کا پتھر ٹوٹ جاتا ہے


غزل

اگر سر پر پریشانی کا پتھر ٹوٹ جاتا ہے
تو رشتوں کا بھرم میرے برادر ٹوٹ جاتا ہے

بہت خوش ہوتا ہے فرض اپنی بیٹی کا ادا کرکے
مگر اک باپ بھی اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے

یہ دل کیا شئے ہے اکثر سارے صدمے جھیل جاتا ہے 
کبھی کھاکر کے اک ہلکی سی ٹھوکر ٹوٹ جاتا ہے

کسی رشتے کی بنیادوں میں جب مطلب پرستی ہو
تو یہ رشتہ ذرا سی دور جاکر ٹوٹ جاتا ہے

انا کس کی ہوئی ہے آج تک سارے زمانے میں 
ذرا سی بات پر ہنستا ہوا گھر ٹوٹ جاتا ہے 

ہوا چلتی نہیں تو مفلسی کو حبس ہوتا ہے
ہوا جب تیز چلتی ہے تو چھپر ٹوٹ جاتا ہے

امیرو!  یوں نہ اتراؤ کہ یہ دولت تمہاری ہے
کہ جس دم موت آتی ہے سکندر ٹوٹ جاتا ہے

کوئی بھی بات ہو تھوڑی بہت نرمی ضروری ہے
کہ جو بھی سخت ہوجاتا ہے اکثر ٹوٹ جاتا ہے

کرے مزدور  کیا گر چین سے سوئے نہ راتوں میں 
کہ دن بھر کی کڑی محنت سے تھک کر ٹوٹ جاتا ہے

صداقت سر بلندی کیلئے آئی ہے دنیا میں 
نذیری حق سے ٹکرائے تو آزر ٹوٹ جاتا ہے

کوئی تبصرے نہیں: