غزل
اگر سر پر پریشانی کا پتھر ٹوٹ جاتا ہے
تو رشتوں کا بھرم میرے برادر ٹوٹ جاتا ہے
بہت خوش ہوتا ہے فرض اپنی بیٹی کا ادا کرکے
مگر اک باپ بھی اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے
یہ دل کیا شئے ہے اکثر سارے صدمے جھیل جاتا ہے
کبھی کھاکر کے اک ہلکی سی ٹھوکر ٹوٹ جاتا ہے
کسی رشتے کی بنیادوں میں جب مطلب پرستی ہو
تو یہ رشتہ ذرا سی دور جاکر ٹوٹ جاتا ہے
انا کس کی ہوئی ہے آج تک سارے زمانے میں
ذرا سی بات پر ہنستا ہوا گھر ٹوٹ جاتا ہے
ہوا چلتی نہیں تو مفلسی کو حبس ہوتا ہے
ہوا جب تیز چلتی ہے تو چھپر ٹوٹ جاتا ہے
امیرو! یوں نہ اتراؤ کہ یہ دولت تمہاری ہے
کہ جس دم موت آتی ہے سکندر ٹوٹ جاتا ہے
کوئی بھی بات ہو تھوڑی بہت نرمی ضروری ہے
کہ جو بھی سخت ہوجاتا ہے اکثر ٹوٹ جاتا ہے
کرے مزدور کیا گر چین سے سوئے نہ راتوں میں
کہ دن بھر کی کڑی محنت سے تھک کر ٹوٹ جاتا ہے
صداقت سر بلندی کیلئے آئی ہے دنیا میں
نذیری حق سے ٹکرائے تو آزر ٹوٹ جاتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں