16 اکتوبر، 2016

دلِ رنجور کی یا دیدۂ تر کی باتیں


دلِ رنجور کی یا دیدۂ تر کی باتیں
ہیں فقط عشق کی راہوں سے مفر کی باتیں

گھر کی باتیں ہیں انھیں گھر میں ہی سلجھا لیجے
لے کے کیوں راہ پہ آجاتے ہیں گھر کی باتیں

اپنا ایمان سلامت ہے یہی کافی ہے 
ورنہ ہر سمت زمانے ہیں ہیں ڈر کی باتیں

لوگ منزل پہ مجھے دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
کوئی سنتا ہی نہیں مجھ سے سفر کی باتیں

ذکرِ میخانہ کو اے شیخ کہاں سے لائے
آپ کو زیبا نہیں دیتیں اُدھر کی باتیں

اے نئی نسل کہ میرا تری جرأت کو سلام
کوئی نیکی بھی نہ کی اور ثمر کی باتیں

آپ کہتے بھی نہیں پھر بھی نذیریؔ ہم سے
بول دیتی ہیں تھکن راہ گذر کی باتیں

کوئی تبصرے نہیں: