اہنے پرانے یار ہی جب صف سے کٹ گئے
دشمن سے دشمنی کے سبھی عیب ہٹ گئے
ایسا بھی کیاہے شیخ کہ اپنے بیان سے
آنچ آئی جب مفاد پہ فورا پلٹ گئے
جب عزم میں اڑان تھی صحرا تھا ایک مشت
رستے میں جتنے آئے سمندر سمٹ گئے
بیٹےکو دفن کرکے یہ کہتا ہے ایک باپ
اللہ صبر دے کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
اک ہم تھے خوش نصیب فقط تیرے شہر میں
پتھر چلے تھے جو بھی وہ مجھ سے چمٹ گئے
ساحل سے اہل عقل نظارے میں رہ گئے
اھل جنوں تھے چند جو طوفاں الٹ گئے
حق اپنے ساتھ ہے تو نذیری نہیں ہے غم
اللہ پر یقیں تھا اکیلے ہی ڈٹ گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں