23 اکتوبر، 2016

اہنے پرانے یار ہی جب صف سے کٹ گئے


اہنے پرانے یار ہی جب صف سے کٹ گئے
دشمن سے دشمنی کے سبھی عیب ہٹ گئے

ایسا بھی کیاہے شیخ کہ اپنے بیان سے 
آنچ آئی جب مفاد پہ فورا پلٹ گئے 

جب عزم میں اڑان تھی صحرا تھا ایک مشت
رستے میں جتنے آئے سمندر سمٹ گئے 

بیٹےکو دفن کرکے یہ کہتا ہے ایک باپ
اللہ صبر دے کہ مرے ہاتھ کٹ گئے

اک ہم تھے خوش نصیب فقط تیرے شہر میں 
پتھر چلے تھے جو بھی وہ مجھ سے چمٹ گئے

ساحل سے اہل عقل نظارے میں رہ گئے
اھل جنوں تھے چند جو طوفاں الٹ گئے 

حق اپنے ساتھ ہے تو نذیری نہیں ہے غم 
اللہ پر یقیں تھا اکیلے ہی ڈٹ گئے 

کوئی تبصرے نہیں: