دھوپ میں تپتے ہوئے صحراء کو پانی چاہئے
رات مہکانے کی خاطر رات رانی چاہئے
جس میں اک بھائی کو بھائی سے کوئی خطرہ نہ ہو
پیار کی ایسی کوئی دنیا بسانی چاہئے
کیا ہوا ناکامیاں ہم کو اگرڈستی رہیں
پھر ہمیں تقدیر اپنی آزمانی چاہئے
مخملی بستر میں وہ راحت کہاں چاہت کہاں
ماں مجھے تیری وہی چادر پرانی چاہئے
وہ نہیں آئے نہ آئیں گے مگر ایسا بھی کیا
کم سے کم جھوٹی خبر آنے کی آنی چاہئے
اس سے ہو جاتا ہے ہلکا اے نذیریؔ دل کا بوجھ
داستاں دل کی تمہیں سننی سنانی چاہئے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں