5 اکتوبر، 2016

کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ہنستے ہیں نہ روتے ہیں


کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ہنستے ہیں نہ روتے ہیں
یہ عشق کے دیوانے کس ڈھنگ کے ہوتے ہیں

دنیا کے جھمیلوں نے الجھائے ہوئے رکھا
اب قبر میں آئے ہیں آرام سے سوتے ہیں

ظاہر کا تبسم ہے باہر کی سجاوٹ ہے
محفل میں جو ہنستے ہیں تنہائی میں روتے ہیں

معلوم ہے جب سب کو دل ٹوٹ ہی جانا ہے
پھر خواب کو آنکھوں میں کیوں لوگ سموتے ہیں

رونا ہے نہ دھونا ہے فرقت ہے نہ تنہائی 
کچھ پیار کے افسانے ایسے بھی تو ہوتے ہیں

برسات سے جل تھل ہیں اور آگ نہیں بجھتی
برسات کے قطرے تو بس جسم بھگوتے ہیں

بے چارے نذیریؔ کو سمجھائے کوئی کیسے
کم عشق میں پانا ہے زیادہ ہے جو کھوتے ہیں

مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: