کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں ہنستے ہیں نہ روتے ہیں
یہ عشق کے دیوانے کس ڈھنگ کے ہوتے ہیں
دنیا کے جھمیلوں نے الجھائے ہوئے رکھا
اب قبر میں آئے ہیں آرام سے سوتے ہیں
ظاہر کا تبسم ہے باہر کی سجاوٹ ہے
محفل میں جو ہنستے ہیں تنہائی میں روتے ہیں
معلوم ہے جب سب کو دل ٹوٹ ہی جانا ہے
پھر خواب کو آنکھوں میں کیوں لوگ سموتے ہیں
رونا ہے نہ دھونا ہے فرقت ہے نہ تنہائی
کچھ پیار کے افسانے ایسے بھی تو ہوتے ہیں
برسات سے جل تھل ہیں اور آگ نہیں بجھتی
برسات کے قطرے تو بس جسم بھگوتے ہیں
بے چارے نذیریؔ کو سمجھائے کوئی کیسے
کم عشق میں پانا ہے زیادہ ہے جو کھوتے ہیں
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں