1 اکتوبر، 2016

آرزو ہے کوئی حسرت ہے دعا ہے کیا ہے

غزل

آرزو ہے کوئی حسرت ہے دعا ہے کیا ہے 
تو بہت دیر سے کچھ سوچ رہا ہے کیا ہے 

خواب ہے خواہشِ بے تاب ہے دلچسپی ہے
تیری آنکھوں میں جو اک راز چھپا ہے کیا ہے

آپ کے پائوں بھٹکنے لگے کیسے آخر 
شیخ جو آپ نے ممبر پہ کہا ہے کیا ہے

تجھ میں انگڑائیاں لیتی ہیں بہاریں کتنی
تو صراحی ہے کہ مینا ہے نشہ ہے کیا ہے

ترکِ الفت کا تمہیں غم بھی نہیں ہے پھر بھی
تیری پلکوں پہ جو سیلاب رکاہے کیا ہے

کوئی الفت نہ مراسم نہ تعلق نہ تڑپ
خشک پتوں پہ جو پیغام لکھا ہے کیا ہے

نام سے چہرۂ بیمار چمک جاتاہے
وہ نذیریؔ کوئی جادو ہے دوا ہے کیا ہے


مسیح الدین نذیریؔ
9321372295
      

کوئی تبصرے نہیں: