غزل
موت کیا آئی میرے چاہنے والے آئے
بعد میرے میری غزلوں کے حوالے آئے
اک وہی گل کہ جو تھا نازشِ گلہائے چمن
ہم اسی گل کو بہر حال اٹھا لے آئے
ان کے ہاتھوں میں ذرا دیکھو سبو ہے کیا ہے
شیخ کیا لینے گئے اور یہ کیا لے آئے
عشق میں کیا ہے پلٹ لیجئے وراقِ جنوں
دامنِ قیس میں بس پائوں کے چھالے آئے
اس گراں شئے کا جہاں کوئی خریدار نہیں
اسی بازار میں ہم اپنی وفا لے آئے
جسم سے خون بہایا ہے پسینہ کر کے
میری اولاد کے تب منہ میں نوالے آئے
سادگی اب کے نذیریؔ تمہیں لے ڈوبے گی
عشق کر آئے ہو کہتے ہو دوا لے آئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں