ایسا کرتے ہیں تب وہ قسمت کے دھنی ہوجاتے ہیں
جو بھی یار کی مرضی ہو عشاق وہی ہوجاتے ہیں
نظم بدل دیں کیوں نہ ہم اس انصاف کا جس کے چکر میں
لوگ کچھ اتنا دوڑتے پھرتے ہیں چرخی ہوجاتے ہیں
لوگ پلٹ کر پھر آتے ہیں ہم سے تجارت کرتے ہیں
ہم بھی اسی فطرت کے ٹھہرے پھر سے سخی ہوجاتے ہیں
منصب کیا ملتا ہے بدل جاتا ہے مزاج اس دنیا کا
قانون اور انصاف سبھی گھر کی لونڈی ہوجاتے ہیں
شہر میں جس کو کہتے ہیں اک ساتھ شکر اور گھی ہونا
اپنے گاؤں میں اب بھی نذیری لوگ وہی ہوجاتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں