7 جون، 2018

ایسا کرتے ہیں تب وہ قسمت کے دھنی ہوجاتے ہیں


ایسا کرتے ہیں تب وہ قسمت کے دھنی ہوجاتے ہیں
جو بھی یار کی مرضی ہو عشاق وہی ہوجاتے ہیں
نظم بدل دیں کیوں نہ ہم اس انصاف کا جس کے چکر میں
لوگ کچھ اتنا دوڑتے پھرتے ہیں چرخی ہوجاتے ہیں
لوگ پلٹ کر پھر آتے ہیں ہم سے تجارت کرتے ہیں
ہم بھی اسی فطرت کے ٹھہرے پھر سے سخی ہوجاتے ہیں
منصب کیا ملتا ہے بدل جاتا ہے مزاج اس دنیا کا
قانون اور انصاف سبھی گھر کی لونڈی ہوجاتے  ہیں
شہر میں جس کو کہتے ہیں اک ساتھ شکر اور گھی ہونا
اپنے گاؤں میں اب بھی نذیری لوگ وہی ہوجاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں: