جگمگاتا جھومتا سنسار مت دیکھا کرو
یہ امیروں کا ہے کاروبار مت دیکھا کرو
دن جمعہ ہفتہ ہے یا اتوار مت دیکھا کرو
سب ہیں اک مزدور پر بیکار، مت دیکھا کرو
پیٹھ پر خنجر لگا تو دوست ہی ہوگا کوئی
کون تھا کس نے کیا ہے وار مت دیکھا کرو
ڈھول ہوتے ہیں سہانے دور کے اس واسطے
تم وطن دیکھو سمندر پار مت دیکھا کرو
مغربی تہذیب قاتل ہے تری تہذیب کی
لاکھ دے وہ دعوتِ دیدار مت دیکھا کرو
جنگ لازم ہو تو مت دیکھو کبھی اپنی تھکن
کود جاؤ موج میں پتوار مت دیکھا کرو
تم کو مزدوری ہے لازم پیٹ بھرنے کیلئے
موسموں کے تم کبھی آثار مت دیکھا کرو
اے مرے دل مان جاؤ اور دکھ ہوگا سوا
تم کلینڈر میں کبھی تہوار مت دیکھا کرو
قتل و خوں نفرت تعصب عصمتوں کی دھجیاں
دل یہی کہتا ہے اب اخبار مت دیکھا کرو
لے نہی سکتا کھلونے میں تری خاطر ابھی
میرے بچے رونقِ بازار مت دیکھا کرو
مفلسوں کی چینخ گونجے گی تمہارے کان میں
تم امیرِ شہر کے دربار مت دیکھا کرو
ایک جیسے ہیں نذیری سب سیاست کے سپوت
ان میں باکردار بے کردار مت دیکھا کرو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں