6 جون، 2018

تم جو انساں ہو تو انسان سے الفت رکھو

اپنی آنکھوں کی حسیں جھیل میں غرقاب کرو
اسی لائق ہے یہ دل اس کو تہِ آب کرو

تم جو انساں ہو تو انسان سے الفت  رکھو
اپنے لہجے کو کسی طور نہ تیزاب کرو

خود کو اس درجہ سنوارو کہ نگاہیں نہ ٹکیں
خود کو کچھ ایسا بنا ڈالو کہ کمیاب کرو

حق تو انسان کا انسان پہ کچھ اتنا ہے
رکھ لو پیاس اپنی مگر غیر کو سیراب کرو

زندگی ریت کے صحرا کی طرح ہے اپنی
ابرِ الفت لئے آؤ اسےشاداب کرو

نفرت و بغض و تعصب میں زمانے گذرے
اب رقم پیار و محبت کا نیا باب کرو

میں چلاجاؤں گا محفل سے تمہاری اٹھ کر
روکنے کا نہ تماشہ مرے احباب کرو

میں کھٹکتا ہوں امیروں کو کہ خود دار ہوں میں
مجھ سے ہوتا نہیں ہر دن انھیں آداب کرو

سامنے ان کے دھڑک جاتا ہے گستاخ ہے یہ
کچھ تو قابو میں نذیری دلِ بے تاب کرو

کوئی تبصرے نہیں: