سکوں کی خنک ہواؤں میں اضطراب آنا
کہاں ضرری ہے ہر بات کا جواب آنا
خدا کے فضل سے امید رکھ کہ ممکن ہے
سلگتی دھوپ میں امید کی سحاب آنا
میں اپنے عہد کی کچھ شوخیاں دکھاؤں انھیں
اے میری عمر گزشتہ کی آب و تاب آنا
اب اس حیات میں بس دو ہی چیز باقی ہیں
کہ دن میں یاد تری اور شب میں خواب آنا
برائے طول ملاقات وہ سوال و جواب
جواب ایسا کہ پھر ہوکے لاجواب آنا
جو داستان محبت سنائی محفل میں
تو لازمی تھا درِ حسن سے عتاب آنا
غریب لوگوں کے بچوں کی عادتیں دیکھو
کھلونے سوچنا اور روٹیوں کے خواب آنا
گلوں کو چھوڑ کے آئیں گی تتلیاں تم پر
چمن میں ہوکے کبھی تم نہ بے نقاب آنا
جنوں کی راہ نذیری تمہیں نہ جانا تھا
گئے تو قیس سے پھر ہوکے فیضیاب آنا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں