مڑ مڑ کے زندگی کی طرف دیکھتے رہے
بچھڑا تو ہم اسی کی طرف دیکھتے رہے
.۔
بچے مچل رہے تھے کھلونوں کے واسطے
ہم اپنی بے بسی کی طرف دیکھتے رہے
گھر گھر سے غیرتوں کا جنازہ نکل گیا
سب لوگ روشنی کی طرف دیکھتے رہے
شاید کہ معجزہ ہو کوئی اس امید پر
سوکھی ہوئی ندی کی طرف دیکھتے رہے
اس کو بھی تھا ہمارے بلانے کا انتظار
چپ ہم بھی تھے اسی کی طرف دیکھتے رہے
وعدہ انھوں نے کرلیا آنے کا ایک بار
تا عمر ہم گھڑی کی طرف دیکھتے رہے
اتنا کہاں تھا ہوش کہ کچھ اور دیکھتے
چہرے کی تازگی کی طرف دیکھتے رہے
کل میکدے میں بادہ و ساغر کو چھوڑ کر
ہم شیخ آپ ہی کی طرف دیکھتے رہے
دل کی صدا کسی نے نذیری نہیں سنی
سب لوگ شاعری کی طرف دیکھتے رہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں