۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنستے ہنستے ہنسی کو بھول گیا
عشق کر کے خوشی کو بھول گیا
دھوم تھی سارے شہر میں جس کی
شہر آخر اسی کو بھول گیا
پا کے اک رتبہ بلند انساں
اپنی بنیاد ہی کو بھول گیا
یاد رکھا چھلکتی آنکھوں کو
اپنی تشنہ لبی کو بھول گیا
ان کے چہرے کی تازگی کے نثار
پھول کی تازگی کو بھول گیا
دیکھ کر ان کا دلنشیں چہرہ
ہجر کی بے کلی کو بھول گیا
زندگی ہے کہ وقت محشر ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
ساری دنیا کے عیب گنوائے
شیخ اپنی کمی کو بھول گیا
کیا ملے مجھ سے اے نذیری وہ
میں گئی زندگی کو بھول گیا
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں