.........غزل...........
پاس میرے اک بھیڑ کھڑی ہے ہیں جانے پہچانے لوگ
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے آئے ہیں سمجھانے لوگ
ہوکے شرابِ ناب میں بے خود شیخِ حرم نے فرمایا
آج زمانہ کتنا برا ہے دین سے ہیں بیگانے لوگ
مطلب و مقصد کی خاطر ایمان سودا کرتے ہیں
دولتِ دیں دیکر پاتے ہیں بس آنے دو آنے لوگ
ظلم و ستم برپا کرکے اور لوٹ کے گھر مظلوموں کا
امن جہاں میں ڈھونڈھ رہے ہیں ، ہیں کتنے دیوانے لوگ
کھاکے زمانے کی ٹھوکر اور سہ کے ستم کی ہر بارش
چھلنی چھلنی ہوتے ہیں تب جاتے ہیں میخانے لوگ
دل میں عداوت لب پہ محبت کیا ہے یہ رسمِ دنیا
آجاتے ہیں اپنے پن کا فوراً ڈھونگ رچانے لوگ
اوڑھ کے اپنے پن کا لبادہ چھیڑ کے گذرے وقت کی بات
قلب و جگر پہ لگ جاتے ہیں طنز کے تیر چلانے لوگ
صرف انانیت کی خواطر کرتے ہیں برباد حیات
چڑیا کھیت جو چگ جاتی ہے لگتے ہیں پچھتانے لوگ
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں