اس کا چہرہ گلاب جیسا ہے
اس کی آنکھوں میں خواب جیسا ہے
اس کی مسکان اک کلی کی طرح
اور وہ ماہتاب جیسا ہے
چپ رہے جب تو کوئی بت جیسے
جب وہ بولے رباب جیسا ہے
کیا کہوں میں اس کا سارا بدن
اک حسیں انقلاب جیسا ہے
دیکھ کر اس کو ہوش کھو بیٹھیں
وہ سراپا شراب جیسا ہے
اس کی قربت سکون دل کا سبب
ہجر اس کا عذاب جیسا ہے
اس نازش لگا کے دل پڑھئے
وہ غزل کی کتاب جیسا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں