7 جون، 2018

اس کا چہرہ گلاب جیسا ہے


اس کا چہرہ گلاب جیسا ہے
اس کی آنکھوں میں خواب جیسا ہے

اس کی مسکان اک کلی کی طرح
اور وہ ماہتاب جیسا ہے

چپ رہے جب تو کوئی بت جیسے
جب وہ بولے رباب جیسا ہے

کیا کہوں میں اس کا سارا بدن
اک حسیں انقلاب جیسا ہے

دیکھ کر اس کو ہوش کھو بیٹھیں
وہ سراپا شراب جیسا ہے

اس کی قربت سکون دل کا سبب 
ہجر اس کا عذاب جیسا ہے

اس نازش لگا کے دل پڑھئے
وہ غزل کی کتاب جیسا ہے

کوئی تبصرے نہیں: