......... غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چہکتے موسموں کا رنگ سارا بیٹھ جاتا ہے
کسی مفلس کے گھر جب آکے فاقہ بیٹھ جاتا ہے
ہماری جب غزل کوئی نئی آتی ہے محفل میں
زمانے پر ہمارے فن کا سکہ بیٹھ جاتا ہے
سہارا اس کو دینا یاد کرکے باپ کو اپنے
کسی رستے پہ جب تھک کر کے بوڑھا بیٹھ جاتا ہے
سفر میں کیا مسافت ، مشکلیں کیاکیسی مجبوری
ذرا سی دیر میں تھک کر نکما بیٹھ جاتا ہے
جوانی میں بہت گردن اکڑ کر لوگ چلتے ہیں
پھر اس کے بعد ہر اچھے سے اچھا بیٹھ جاتا ہے
مسلسل منتقل ہوتا ہے اس کا داغ نسلوں میں
وہ جس کے گال پر اپنا طمانچہ بیٹھ جاتا ہے
مجھے ہر روز لگتا ہے وہ اب آنے والے ہیں
منڈیروں پر ہماری روز کوا بیٹھ جاتا ہے
بزرگوں کی دعاؤں کا اثر ہے آج بھی ہم میں
غلط کچھ بولنا چاہیں تو لہجہ بیٹھ جاتا ہے
کسی معصوم بچے سے نذیری جھوٹ ناممکن
کہ ان بچوں کے ہونٹوں پر فرشتہ بیٹھ جاتا ہے
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں