۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسی شان سے کی ہم نے ابتدائے غزل
جگر کو تھام کے کہنے لگے وہ ہائے غزل
غزل سے ہوگیا کچھ اتنا اپنا یارانہ
کبھی نہ جائیں اگر ہم تو خود بلائے غزل
گھلا ہے زہر ہواؤں میں آج نفرت کا
کوئی بتائے کہ کہ کیسے کوئی سنائےغزل
جب عصمتوں کے لٹیرے ہیں صاحبِ مسند
تو ایسے حال میں پھر کیسے مسکرائے غزل
غزل نے چھانی ہیں پرخار وادیاں اتنی
کہ آبلوں سے بھرے ہیں حسین پائے غزل
سکوں ہے پیار ہے وارفتگی ہے الفت ہے
کہ بے خودی میں ہر اک شخص گنگنائے غزل
ہیں عصمتوں کے لٹیرے لگائے گھات اپنی
تو کشمکش میں کہ خود کو کہاں چھپائے غزل
غزل لکھو تو کچھ اس طرح سے غزل لکھو
معاشرے کو کھلا آئینہ دکھائے غزل
اگر ہے شوق نذیری غزل سرائی کا
تو اپنا خون جلاتے رہو برائے غزل
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں