جانے کیا بات وہ سینے میں چھپائے ہوئے ہیں
لڑکھڑاہٹ سی قدموں میں لجائے ہوئے ہیں
اک ذرا نظر کرم ایک ذرا نظر کرم
ہم بھی پلکوں پہ حسیں خواب سجائے ہوئے ہیں
لوٹ کر آؤ کہ مشتاق ہیں ہم آنے کے
آپ کی راہ میں پلکوں کو بچھائے ہوئے ہیں
ساقیا اب ترے میخانے کا کیا پوچھنا ہے
شیخ صاحب ترے میخانے میں آئے ہوےہیں
جس نے توڑا ہے کئی بار بھروسہ اپنا
ان سے ہم آج بھی امید لگائے ہوئے ہیں
ہائے افسوس کہ رکھتے بھی نہیں عزمِ سفر
اور منزل کیلئے آس لگائے ہوئے ہیں
اتنے سورج جو چمکتے ہیں نذیری صاحب
ان میں اکثر مرے ہاتھوں کے اگائے ہوئے ہیں
مسیح الدین نذیری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں