7 جون، 2018

جانے کیا بات وہ سینے میں چھپائے ہوئے ہیں


جانے کیا بات وہ سینے میں چھپائے ہوئے ہیں
لڑکھڑاہٹ سی قدموں میں لجائے ہوئے ہیں 

اک ذرا نظر کرم ایک ذرا نظر کرم
ہم بھی پلکوں پہ حسیں خواب سجائے ہوئے ہیں

لوٹ کر آؤ کہ مشتاق ہیں ہم آنے کے
آپ کی راہ میں پلکوں کو بچھائے ہوئے ہیں

ساقیا اب ترے میخانے کا کیا پوچھنا ہے 
شیخ صاحب ترے میخانے میں آئے ہوےہیں 

جس نے توڑا  ہے کئی بار بھروسہ اپنا 
ان سے ہم آج بھی امید لگائے ہوئے ہیں

ہائے افسوس کہ رکھتے بھی نہیں عزمِ سفر
اور منزل کیلئے آس لگائے ہوئے ہیں 

اتنے سورج جو چمکتے ہیں نذیری صاحب
ان میں اکثر مرے ہاتھوں کے اگائے ہوئے ہیں 


مسیح الدین نذیری

کوئی تبصرے نہیں: