7 جون، 2018

گلشن کے کئی پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں


گلشن کے کئی پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
مالی کے تعصب کی ہوا کھائے ہوئے ہیں 

کیا ان پہ کٹی تم نے پلٹ کر نہیں پوچھا
جو لوگ زمانے ترے ٹھکرائے ہوئے ہیں 

جو بات کہی ہم نے انھیں سے تو سنی تھی
پھر شیخ حرم کس لئے بل کھائے ہوئے ہیں 

دیکھی گئی نفرت کی روِش ان کے عمل میں 
جو لوگ علم پیار کا لہرائے ہوئے ہیں 

انصاف غریبوں کی پہونچ میں نہیں رہتا
ظالم ہی عدالت سے سکوں پائے ہوئے ہیں 

ہم جیسا کوئی صاحبِ دل پا نہیں سکتے
ہچھتائیں گے وہ خود پہ جو اترائے ہوئے ہیں

خوش رنگ گلستاں کی حسیں آس جگاکر 
کچھ لوگ نذیری مجھے بہلائے ہوئے ہیں

کوئی تبصرے نہیں: