گلشن کے کئی پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
مالی کے تعصب کی ہوا کھائے ہوئے ہیں
کیا ان پہ کٹی تم نے پلٹ کر نہیں پوچھا
جو لوگ زمانے ترے ٹھکرائے ہوئے ہیں
جو بات کہی ہم نے انھیں سے تو سنی تھی
پھر شیخ حرم کس لئے بل کھائے ہوئے ہیں
دیکھی گئی نفرت کی روِش ان کے عمل میں
جو لوگ علم پیار کا لہرائے ہوئے ہیں
انصاف غریبوں کی پہونچ میں نہیں رہتا
ظالم ہی عدالت سے سکوں پائے ہوئے ہیں
ہم جیسا کوئی صاحبِ دل پا نہیں سکتے
ہچھتائیں گے وہ خود پہ جو اترائے ہوئے ہیں
خوش رنگ گلستاں کی حسیں آس جگاکر
کچھ لوگ نذیری مجھے بہلائے ہوئے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں