تیری عادت سدا یہ روٹھ جانے کی ہے
تجھ کو ضد کیوں مجھے آزمانے کی ہے
میرے آنگن میں خوشبو بکھرنے لگی
یہ علامت فقط تیرے آنے کی ہے
کام تھا اک ضروری نہیں آسکے
بات یہ صرف باتیں بنانے کی ہے
مشکلوں سے کہو دیکھ لیں گے تمہیں
ہم کو دھن اپنی منزل کو پانے کی ہے
ہم بھی ضدی ہیں پھر گر کے اٹھ جائیں گے
تم کو ضد جب مسلسل گرانے کی ہے
زخم دل میں چھپاکر نمی آنکھ میں
بات ہی کچھ الگ مسکرانے میں ہے
خود بھی بھوکی ہے اور اپنی پروا نہیں
فکر بیوہ کو بچے سلانے کی ہے
کچھ ملا کھالیا ورنہ بھوکے رہے
یہ ادا مفلسوں کے گھرانے کی ہے
زخم پر زخم اور پھر نمک پاشیاں
اے نذیری یہ عادت زمانے کی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں