7 جون، 2018

تیری عادت سدا یہ روٹھ جانے کی ہے


تیری عادت سدا یہ روٹھ جانے کی ہے 
تجھ کو ضد کیوں مجھے آزمانے کی ہے

میرے آنگن میں خوشبو بکھرنے لگی
یہ علامت فقط تیرے آنے کی ہے

کام تھا اک ضروری نہیں آسکے
بات یہ صرف باتیں بنانے کی ہے

مشکلوں سے کہو دیکھ لیں گے تمہیں 
ہم کو دھن اپنی منزل کو پانے کی ہے

ہم بھی ضدی ہیں پھر گر کے اٹھ جائیں گے
تم کو ضد جب مسلسل گرانے کی ہے

زخم دل میں چھپاکر نمی آنکھ میں 
بات ہی کچھ الگ مسکرانے میں ہے 

خود بھی بھوکی ہے اور اپنی پروا نہیں 
فکر بیوہ کو بچے سلانے کی ہے 

کچھ ملا کھالیا ورنہ بھوکے رہے
یہ ادا مفلسوں کے گھرانے کی ہے 

زخم پر زخم اور پھر نمک پاشیاں
اے نذیری یہ عادت زمانے کی ہے

کوئی تبصرے نہیں: