۔۔۔۔۔۔۔۔ مینائے غزل 4۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشتہ مرا احساس کی سیڑھی سے ملا ہے
تب جاکے یہ قد میرا بلندی سے ملا ہے
جو لاکھ بلانے پہ نہ ملنے کبھی آیا
حالات بدلتے ہی وہ مرضی سے ملا ہے
اشعار کی پلکوں پہ اتر آتے ہیں آنسو
وہ درد ہمیں عشق کی تلخی سے ملا ہے
درپیش اسے کوئی ضرورت ہے یقینا
پھر آج وہ مجھ سے بڑی نرمی ہے ملا ہے
آنکھوں میں خماری ہے تحیر ہے نشہ ہے
کیا ترا پتہ ہے کہ شرابی سے ملا ہے
پتھر سے بھی وہ زخم لگانا نہیں ممکن
جو زخم ہمیں پھول کی ڈالی سے ملا ہے
پچھتاوے اتر آئے ہیں احساس کی چھت پر
جب بھی وہ مرے پیار کی گرمی سے ملا ہے
گھر شام کو لوٹوں تو لگے خلد کا منظر
گھر میں جو سکوں ہے مجھے بیٹی سے ملا ہے
آندھی بھی جدا کر نہ سکے ایسی پکڑ ہو
یہ درس ہمیں پھول سے تتلی سے ملا ہے
پردہ ہو ہنسی کا کوئی غم دیکھ نہ پائے
ہاں ایسا ہنر مجھ کو نذیری سے ملا ہے
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں