مینائے غزل 3
..........غزل.........
تعلق ہے مرا اس داستاں سے
مسلسل خون رستا ہے جہاں سے
بہت محروم ہوں میں سائباں سے
مسلسل دور ہوں میں باپ ماں سے
مچل جائیں نہ بچے مفلسی میں
چلو بچ کر کھلونوں کی دوکاں سے
نہیں رکھتے ہیں ہم اپنی قیادت
امیدیں صرف طیب اردگان سے
جنابِ شیخ پر کیسا بھروسہ
پلٹ جائیں گے پھر اپنے بیاں سے
اسی مٹی میں مل جانا ہے ہم کو
محبت ہے ہمیں ہندوستاں سے
یہ دل لگتا ہے کافر ہوگیا ہے
"لرزجاتا ہے آوازِ اذاں سے"
تمہیں بھی آج ٹھکرایا گیا کیا؟
کہ تم بھی لگ رہے ہو رائگاں سے
میں کافر، تو بھی کافر ، وہ بھی کافر
اٹھالاتے ہو یہ فتوے کہاں سے
امامِ عشق کہہ سکتے ہو مجھ کو
میں چاہت میں گذر آیا ہوں جاں سے
کوئی پھر سے ضرورت آپڑی کیا
ہوئے جاتے ہو پھر تم مہرباں سے
مجھے سننا بھی بہت آساں نہیں ہے
لہو ٹپکے گا میری داستاں سے
میری طاقت ذرا دیکھے تو کوئی
لڑا ہوں نفس جیسے پہلواں سے
خود اپنا آپ تج دینے سے پہلے
محبت راس آئیگی کہاں سے
اکیلا پن مجھے ڈسنے لگا تھا
نکل آیا نذیری میں مکاں سے
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں