مینائے غزل۔
غزل ردیف پر 6 غزلیں
............غزل 1..............
تجھے ہے ٹوٹے دلوں کا بہت خیال غزل
ہے تجھ میں وقت کے زخموں کا اندمال غزل
کچھ ایسے بھی ہیں جو باغی ترے وقار کے ہیں.
ہے رخ پہ تیرے اسی بات کا ملال غزل
گھری ہو لاکھ تو ہر ایک سمت کانٹوں سے
بچا کے لائیں گے ہم تجھ کو بال بال غزل
جو اہلِ دل ہیں جہاں میں غزل کے شیدا ہیں
تمہارے واسطے یہ بھی ہے نیک فال غزل
ترے جو ہوگئے کب تجھ سے کم پہ ٹلتے ہیں
اسی لئے نہیں ہوگا تجھے زوال غزل
ترا بدن ہے صنوبر سحاب زلفیں ہیں
ہیں ریشمی سے بہت تیرے خد و خال غزل
ترا مزاج رہیگا وہی گلوں والا
تجھے دلائے کوئی لاکھ اشتعال غزل
جو ایک بار ملا تجھ سے پھر کہیں نہ گیا
کچھ ایسا رکھا ہے اندر ترے کمال غزل
کچھ اتنا شیریں ہے لہجہ غزل کا کیا کہئے
جواب میرا محبت اگر سوال غزل
اگر غزل سے محبت کا تجھ کو دعوی ہے
جلاکے خون نذیری جگر کا ڈھال غزل
.........غزل 2........
بلند تر ہے ترا ہر جگہ مقام غزل
تو سب کے دل کے قریں ہے تجھے سلام غزل
ترا پیام محبت ترا مزاج خلوص
اسی لئے ترا ہر سو ہے احترام غزل
سوال تھا ، کوئی تریاق زخمِ دل کیلئے
زباں پہ آگیا فوراً تمہارا نام غزل
کسی کے ہونٹوں پہ اشعار آگئے میرے
لگا کہ جیسے غزل سے ہے ہم کلام غزل
بھرا ہوا ہے سرورِ حیات سے دامن
لگارہی ہے مسلسل صدائے عام غزل
جسے سکون میسر نہ ہو ادھر آئے
سکونِ قلب کا کرتی ہے انتظام غزل
وہ دشمنوں سے بھی ہنس کر سلام کرتی ہے
کبھی کسی سے نہیں لیتی انتقام غزل
کبھی کسی جھڑکتے ہوئے نہیں دیکھا
گلے سبھی کو لگانا ہے تیرا کام غزل
اسی لئے تو زمانہ غزل کا شیدا ہے
لطافتوں سے مزین ہے خوش خرام غزل
ہماری بزم میں جاری ہے تیرا ذکرِ حسیں
سنارہے ہیں نذیری ترا پیام غزل اس
........غزل 3........
عمر بھر یوں ہی چھلکتی رہے صہبائے غزل
یوں ہی ہر رنگ کے کھلتے رہیں گلہائے غزل
سب کا دل جیت لے کچھ ایسا ہے جادو اس میں
ہے کشش ایسی کہ ماحول پہ چھاجائے غزل
تلخ حالات میں بن جائے محبت کی سفیر
تجھ سے پھر دل کی کدورت سبھی دھل جائے غزل
بس غزل چاہیئے کچھ اور سے مطلب بھی نہیں
ہم نے ایسے بھی بہت دیکھے ہیں شیدائے غزل
اس کو طوفان سے لڑنے کا ہنر آتا ہے
لڑکھڑاتے نہیں دیکھے ہیں کبھی پائے غزل
جوش سے بھردے اداسی کے ستائے دل کو
سرد ہوتے ہوئے جذبات کو گرمائے غزل
اس کے اوصاف میں شامل ہے محبت کا فروغ
ذہن اخلاص سے ایثار سے مہکائے غزل
اک عجب کیف سا اندر مرے چھاجاتا ہے
آس پاس آکے مرے جب بھی کوئی گائے غزل
عمر بھر ہوش نہ آئیگا نذیری ہم کو
پاس تقدیر سےجب اپنے ہے مینائے غزل
۔۔۔........غزل 4........
کچھ ایسی شان سے کی ہم نے ابتدائے غزل
جگر کو تھام کے کہنے لگے وہ ہائے غزل
غزل سے ہوگیا کچھ اتنا اپنا یارانہ
کبھی نہ جائیں اگر ہم تو خود بلائے غزل
گھلا ہے زہر ہواؤں میں آج نفرت کا
کوئی بتائے کہ کہ کیسے کوئی سنائے غزل
جب عصمتوں کے لٹیرے ہیں صاحبِ مسند
تو ایسے حال میں پھر کیسے مسکرائے غزل
غزل نے چھانی ہیں پرخار وادیاں اتنی
کہ آبلوں سے بھرے ہیں حسین پائے غزل
سکوں ہے پیار ہے وارفتگی ہے الفت ہے
کہ بے خودی میں ہر اک شخص گنگنائے غزل
ہیں عصمتوں کے لٹیرے لگائے گھات اپنی
ہے کشمکش میں کہ خود کو کہاں چھپائے غزل
غزل لکھو تو کچھ اس طرح سے غزل لکھو
معاشرے کو کھلا آئینہ دکھائے غزل
اگر ہے شوق نذیری غزل سرائی کا
تو اپنا خون جلاتے رہو برائے غزل
........غزل 5........
بڑے اصول پہ ہم نے رکھی بِنائے غزل
تو کیوں چراغ نہ تہذیب کے جلائے غزل
کچھ ایسی بات غزل میں رہے کہ دشمن کو
قریب اپنے محبت سے کھینچ لائے غزل
غزل میں اتنی کشش ہے کہ بعد کوشش بھی
نہ چھوڑ پائیگا تا عمر مبتلائے غزل
زمانے بھر کے ہیں عنواں غزل کے دامن میں
یہ کس نے تم سے کہا تنگ ہے ردائے غزل
سکون بخش ادائیں ہیں دلفریب مزاج
سنوار دیتے ہیں ماحول سازھائے غزل
ہے زخم زخم وجود اس کا مسکرائے کیوں
لگاؤ آج وہ مرحم کہ کھلکھلائے غزل
اسے سماج کا اک آئینہ بنادیجے
یہی بس اہل سخن سے ہے التجائے غزل
سکون قلب میسر نہ ہو کبھی جس کو
بہت مفید ہے اس کیلئے دوائے غزل
کھڑی ہے اس کی عمارت بڑے ستونوں پر
ہیں میر و غالب و ذوق و فراز پائے غزل
یہ سچ ہےاس کیلئے تو نے دل جلایا ہے
تجھے دعا ہے نذیری کہ راس آئے غزل
........غزل 6........
ہمارے خوں میں ملائی گئی حنائے غزل
پھر اور کھل کے ابھر آئے رنگہائے غزل
اٹھاؤ ناز، سنبھالو اسے محبت سے
خیال رکھو کہ ہم سے نہ روٹھ جائے غزل
ہے جن کو تجربہ وہ لوگ یہ بتاتے ہیں
کہ دل کو دل سے ملاتی ہے آبنائے غزل
جو چھولیا مرے اشعار تیرے ہونٹوں نے
لگا کہ جیسے غزل خود ہی گنگنائے غزل
شبِ فراق کبھی نیند جب اُچٹ جائے
تھپک تھپک کے بڑے پیار سے سلائے غزل
جسے سکون میسر نہ ہو اسے کہہ دو
دوائیں چھوڑ دے اک بار آزمائے غزل
غزل کا لہجہ بہت دلنشیں ہے کیا کہئے
دلوں کی دوریاں پل میں سمیٹ لائے
تعلقات میں جب تلخیوں کا دور آئے
مٹھاس بخش دے اور تلخیاں مٹائے غزل
دلوں کو ملتے نذیری اسی سے دیکھا ہے
میں کیا بتاؤں کہ کیا معجزہ دکھائے غزل
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں