17 اگست، 2019

کھل اٹھی آج مری شاخِ تمنا کیسے

مینائے حیات 20
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھل اٹھی آج مری شاخِ تمنا کیسے
میرے آنگن میں ہوا آپ کا جلوہ کیسے

اس سے کچھ بھی ہو محبت تو نہیں ہوسکتی
وہ جو ہر بات میں کہہ دیتا کیوں کیا کیسے

اس کے لہجے میں حلاوت یہ کہاں سے آئی
محوِحیرت ہے نمک ہوگیا میٹھا

میرا دشمن ہے تو پسپا مرے معیار سے ہو
اتنی جلدی اسے ہوجانے دوں پسپا کیسے

شیخ جی آپ کی خلوت کا پتہ ہے ہم کو
آپ بتلاتے ہیں یوں خود کو فرشتہ کیسے

کیا کہوں اس کو اگر اشکِ ندامت نہ کہوں
اپنی محفل میں مجھے اس نے بلایا کیسے

تیرا معیار الگ ہے مرا معیار الگ
زندگی تو ہی بتا میں تجھے ملتا کیسے

آپ تو خود کو جہاں دیدہ بتاتے تھے جناب
آپ اوروں کی طرح کھاگئے دھوکہ کیسے

اپنے ماں باپ کی خدمت کرو اور پھر دیکھو
باپ کا قرض ادا کرتا ہے بیٹا کیسے

عمر بھر جو رہے بیزار نذیری مجھ سے
موت کے بعد وہ دینے لگے پرسہ کیسے

مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو

کوئی تبصرے نہیں: