مینائے حیات 19
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غزل. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں مہکتے ہوئے خواب آنے لگ گئے ہیں
سنا ہے نیند میں ہم مسکرانے لگ گئے ہیں
وہ میرے اپنے ہیں بھیجا تھا اس کو سمجھانے
مرے خلاف اسے ورغلانے لگ گئے ہیں
ترا قصور نہیں عمر کا تقاضہ ہے
تجھے یہ سارے مناظر جو بھانے لگ گئے ہیں
چلا ہے ذکر یہاں میری کامیابی کا
جو میرے یار ہیں سب منہ بنانے لگ گئے ہیں
ستم تو یہ ہے کہ اوروں سے شعر لکھواکر
وہ اپنے آپ کو غالب بتانے لگ گئے ہیں
ابھی انھوں نے مجھے مسکراکے دیکھا ہے
ابھی سے دل میں مرے شامیانے لگ گئے ہیں
ہمارا تذکرہ ان کی زبان پر آیا
ہمارے خواب بھی کچھ کچھ ٹھکانے لگ گئے ہیں
وہ جن کواپنا سمجھ کر کے تج دیا سب کچھ
ہمیں وہ خون کے آنسو رلانے لگ گئے ہیں
خبر ملی ہے وہ گذریں گے اپنی بستی سے
ہم اپنے گھر کو نذیری سجانے لگ گئے ہیں
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں