غزل
یہ بات کرنی پڑی دل میں جاگزین مجھے
ڈبو گیا مرا احباب پر یقین مجھے
مفاد کے لئے بتلارہے ہیں دین مجھے
جنابِ شیخ نہیں آپ پر یقین مجھے
میں آستین کے سانپوں کا رقص کروادوں
ذرا سی دیر بجانی پڑے گی بین مجھے
ملے ہو تم تو سدا آہ بھر کے دیکھتے ہیں
گلاب و سوسن و ریحان و یاسمین مجھے
سنبھال تیری پہونچ سے نکل نہ جاؤں کہیں
اب اس قدر بھی مسلسل نہ چھان بین مجھے
یہ بات طے ہے کہ دل پر کسی کا زور نہیں
تو کیا بتاتے ہیں آکر یہ ناصحین مجھے
مجھے خوشی ہے کہ میری مخالفت کرکے
عروج بخش رہے ہیں مخالفین مجھے
ہیں جمع وامق و فرہاد و حضرتِ مجنوں
بنارہے ہیں سبھی عشق میں معین مجھے
کچھ اور دیکھتا موقع نہ مل سکا اتنا
حواس گم تھے وہ اتنا لگا حسین مجھے
وہ میری ذات میں خامی نکالنے کے لئے
لگا کے دیکھتے رہتے ہیں دوربین مجھے
کیا وہ عشق نذیری کہ آج حیرت سے
زمانہ چیخ کے کہتا ہے آفرین مجھے
مسیح الدین نذیری پورہ معروف مئو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں