1 جولائی، 2022

شام غم ہے اور تنہائی کا عالم کیا کروں ۔ صفی الرحمن صفی معروفی

30 ,6, 2022
بزم سخن پورہ معروف کی 35 ویں طرحی نشست میں کہا گیا کلام 

مصرع طرح
شام غم ہے اور تنہائی کا عالم کیا کروں
شاعر ۔۔صفی الرحمن صفیؔ معروفی

سر پہ چھائی ہے بلا,  سینے میں ہے غم کیا کروں 
ہوگیا جب سے اسیر زلف پرخم کیا کروں

اب نہ کوئی دوست  اپنا ہے نہ ہمدم کیا کروں
زخم پر رکھتا نہیں ہے کوئی  مرہم کیا کروں

سوچتاہوں کس طرح ہو زخم دل کا اندمال 
دے رہا ہے زخم پر وہ زخم پیہم کیا کروں

دل کی ان سے بات کہدوں تو بپھر جائیں گے وہ  
ہے مزاجِ  یار برہم  اور برہم کیا کروں

جو گیا مجھ کو اکیلا چھوڑکر منجدھار میں
اس کی خاطراپنی آنکھوں کو میں پرنم کیا کروں

دل میں روشن کررہاہوں ان کی یادوں کے چراغ
”شام غم ہے اور تنہائی کا عالم کیا کروں“

باز آسکتا نہیں ہوں میں تمہارے عشق سے
دل نے میرے کرلیا ہے عزم محکم کیا کروں

عندلیبان چمن کی فکر ہے مجھ کو بہت
ظلم توڑے جارہے ہیں ان پہ ہردم کیا کروں

ہے اگر بیدار دل میں غیرت ایماں تو پھر
میں کسی ظالم کے آگے اپنا سر خم کیا کروں

جان دے سکتا ہوں اپنی اور لے سکتاہوں میں
بات ناموس رسالت پر میں مبہم کیا کروں

طاقت خامہ سے میرے خوف کھاتے ہیں عدو
لیکے پھر میں ہاتھ میں بندوق اور بم کیا کروں

منزل مقصود مجھکو اے صفیؔ مل جائیگی
حوصلہ دل میں لیے اڑتارہوں کم کیا کروں

کوئی تبصرے نہیں: