غزل
راس اب آنے لگی ہے شامِ تنہائی مجھے
سسکیوں کی رُت بھی اب لگتی ہے شہنائی مجھے
اب نہ اپنوں کی خبر نہ دوسروں کی فکر ہے
زندگی کس موڑ پر آخر یہ لے آئی مجھے
جون کی وہ دو پہر بھی چاندنی لگنے لگی
تیری صورت بام پر جس دم نظر آئی مجھے
میں علاجِ دردِ دل کرنے گیا تھا ان کے پاس
اور زخمی کر گئی ان کی مسیحائی مجھے
جب بھی ہنستی ہے تو کھل اٹھتے ہیں زخموں کے گلاب
زندگی تیری ہنسی اب تک راس آئی مجھے
اس ستمگر سے کہو مشقِ ستم جاری رہے
زخمِ دل میں چاہئے کچھ اور گہرائی مجھے
راہ میں کل ایک صاحب نے کہا اہلِ خرد
اور جانے کتنی سہنی ہوگی رسوائی مجھے
مان کر دل کے ہوئے برباد سارے حوصلے
ٹکڑے ٹکڑے کر گئی ساون کی پروائی مجھے
ایک لمحے نے نذیریؔ زندگی ہی چھین لی
پڑ گئی مہنگی یہ بچپن کی شناسائی مجھے
راس اب آنے لگی ہے شامِ تنہائی مجھے
سسکیوں کی رُت بھی اب لگتی ہے شہنائی مجھے
اب نہ اپنوں کی خبر نہ دوسروں کی فکر ہے
زندگی کس موڑ پر آخر یہ لے آئی مجھے
جون کی وہ دو پہر بھی چاندنی لگنے لگی
تیری صورت بام پر جس دم نظر آئی مجھے
میں علاجِ دردِ دل کرنے گیا تھا ان کے پاس
اور زخمی کر گئی ان کی مسیحائی مجھے
جب بھی ہنستی ہے تو کھل اٹھتے ہیں زخموں کے گلاب
زندگی تیری ہنسی اب تک راس آئی مجھے
اس ستمگر سے کہو مشقِ ستم جاری رہے
زخمِ دل میں چاہئے کچھ اور گہرائی مجھے
راہ میں کل ایک صاحب نے کہا اہلِ خرد
اور جانے کتنی سہنی ہوگی رسوائی مجھے
مان کر دل کے ہوئے برباد سارے حوصلے
ٹکڑے ٹکڑے کر گئی ساون کی پروائی مجھے
ایک لمحے نے نذیریؔ زندگی ہی چھین لی
پڑ گئی مہنگی یہ بچپن کی شناسائی مجھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں