غزل
میں جارہا تھا مجھے لوٹ کر کے آنا تھا
تمہیں بلانے کا اک فرض تو نبھانا تھا
وہ گھر کے صحن میں سب لوگ مل کے بیٹھتے تھے۔
وہ کیسا وقت تھا کتنا حسیں زمانہ تھا
اے میرے دوست تو جا۔ دشمنوں کی صف میں جا
میں اتنا یاد رکھوں گا کہ دوستانہ تھا
کل اک فقیر کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
تھکن کے ساتھ گئی عمر کا فسانہ تھا
وہی بتائیں یہ ملنا بھی کوئی ملنا تھا
انھیں بھی دیر ہوئی تھی مجھے بھی جانا تھا
بچا نہ پائے جو اپنے مفاد اس کو کبھی
جناب شیخ کی محفل میں لے کے جانا تھا
عجب ہو تم بھی نذیری کہاں کی لے بیٹھے
کسی نے کچھ نہ سنا اس نے کچھ کہا نہ تھا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں