22 اگست، 2016

محبت جب کبھی بانہوں کا گھیرا ڈال دیتی ہے

غزل
محبت جب کبھی بانہوں کا گھیرا ڈال دیتی ہے
سیاست آکے اس میں کوئی پھندا ڈال دیتی ہے
ہوس اہلِ ہوس جانیں ہماری مفلسی ہم پر
ہمیشہ سے قناعت کا لبادہ ڈال دیتی ہے
اگر ملت فروشی ہو تو پھر کیا دل منور ہو
جہاں کچھ آس ہو لاکر عمامہ ڈال دیتی ہے
امڈ آتے ہیں سب قوس و قزح کے رنگ خوابوں میں
مری ماں مجھ پہ جب اپنا دوپٹہ ڈال دیتی ہے
رواداری کو کب سمجھیں گے نفرت کے نمائندے
جبلت ان کی ہر بستی ہیں جھگڑا ڈال دیتی ہے
کوئی عہدہ کوئی اعزاز یا سنسد کی رکنیت
حکومت اس طرح گردن میں پٹہ ڈال دیتی ہے
وہی تنظیم وندے ماترم کا شور کرتی ہے
لگا کر بھگوا جو نیچے ترنگا ڈال دیتی ہے
مری بیٹی اداسی دیکھتی ہے میرے چہرے پر
مرے قدموں میں وہ اپنا کھلونا ڈال دیتی ہے
نذیریؔ ہم ہیں ایسی قوم سے جو وقت آنے پر
وطن پہ اپنے نذرانہ لہو کا ڈال دیتی ہے

کوئی تبصرے نہیں: