غزل
كبھی دیوار ملتی ہے تو اس کو در نہیں ملتا
كبھی دیوار ملتی ہے تو اس کو در نہیں ملتا
غریبی بھی عجب شئے ہے کہ پورا گھر نہیں ملتا
تمہارے شہر میں دن رات ہم نے ایک کرڈالے
کوئی اک شخص اپنے آپ سے بہتر نہیں ملتا
تمہارے شہر کی رونق کا بس اتنا تعارف ہے۔
یہاں دستار مل جاتی ہے لیکن سر نہیں ملتا
حکومت کی یہ نا اہلی ہے یا ہے مصلحت کوئی
شریروں کے محلے میں اسے کچھ شر نہیں ملتا
مشینوں کے زمانے میں مشینوں سے تعلق ہے
کوئی بھی اب کسی سے دو قدم چل کر نہیں ملتا
کہوں تو سونے چاندی کی دوکاں میں بھیڑ رہتی ہے
مگر شرم و حیا کا اب کہیں زیور نہیں ملتا
چلو ہم لوگ ہی مل بیٹھ کر کچھ جشن کرتے ہیں
نذیری کا ٹھکانہ کیا کبھی گھر پر نہیں ملتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں