22 اگست، 2016

كبھی دیوار ملتی ہے تو اس کو در نہیں ملتا

غزل
كبھی دیوار ملتی ہے تو اس کو در نہیں ملتا
غریبی بھی عجب شئے ہے کہ پورا گھر نہیں ملتا
تمہارے شہر میں دن رات ہم نے ایک کرڈالے
کوئی اک شخص اپنے آپ سے بہتر نہیں ملتا
تمہارے شہر کی رونق کا بس اتنا تعارف ہے۔ 
یہاں دستار مل جاتی ہے لیکن سر نہیں ملتا
حکومت کی یہ نا اہلی ہے یا ہے مصلحت کوئی 
شریروں کے محلے میں اسے کچھ شر نہیں ملتا
مشینوں کے زمانے میں مشینوں سے تعلق ہے
کوئی بھی اب کسی سے دو قدم چل کر نہیں ملتا
کہوں تو سونے چاندی کی دوکاں میں بھیڑ رہتی ہے
مگر شرم و حیا کا اب کہیں زیور نہیں ملتا
چلو ہم لوگ ہی مل بیٹھ کر کچھ جشن کرتے ہیں 
نذیری کا ٹھکانہ کیا کبھی گھر پر نہیں ملتا

کوئی تبصرے نہیں: