22 اگست، 2016

عمر بھر رسہ کشی کوئی کسی کا نہ ہوا

عمر بھر رسہ کشی کوئی کسی کا نہ ہوا 
زندگی تیرا مرا کیا خوب یارانہ ہوا
چونک کر اٹھ بیٹھتا ہوں کس طرح کا خوف ہے
جب سے یاروں کا مرے لہجہ شریفانہ ہوا
کشت و خوں نفرت تعصب عقل کی بازی گری 
شکر رب العالمیں کا ہے میں دیوانہ ہوا
یوں سمجھ لیں کہ یہی انسان کی معراج ہے
بادشاہی میں اگر لہجہ فقیرانہ ہوا
اب نہیں پہلی سی تلخی اب فضا کچھ ٹھیک ہے 
میں بہت خوش ہوں چلو اتنا تو یارانہ ہوا
ایسا لگتا ہے اب دنیا قریب المرگ ہے
رونما انسان میں طرز بہیمانہ ہوا
آگیا تھا مسکرانا اپنے زخموں پر ہمیں 
اور نذیری یہ بھی دنیا کو گوارہ نہ ہوا

کوئی تبصرے نہیں: