عمر بھر رسہ کشی کوئی کسی کا نہ ہوا
زندگی تیرا مرا کیا خوب یارانہ ہوا
چونک کر اٹھ بیٹھتا ہوں کس طرح کا خوف ہے
جب سے یاروں کا مرے لہجہ شریفانہ ہوا
کشت و خوں نفرت تعصب عقل کی بازی گری
شکر رب العالمیں کا ہے میں دیوانہ ہوا
یوں سمجھ لیں کہ یہی انسان کی معراج ہے
بادشاہی میں اگر لہجہ فقیرانہ ہوا
اب نہیں پہلی سی تلخی اب فضا کچھ ٹھیک ہے
میں بہت خوش ہوں چلو اتنا تو یارانہ ہوا
ایسا لگتا ہے اب دنیا قریب المرگ ہے
رونما انسان میں طرز بہیمانہ ہوا
آگیا تھا مسکرانا اپنے زخموں پر ہمیں
اور نذیری یہ بھی دنیا کو گوارہ نہ ہوا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں