15 اگست، 2016

یوں نقشہ جہاں پہ مدینہ ہے بیچ میں


نعتِ رسول  ﷺ

یوں نقشہ جہاں پہ مدینہ ہے بیچ میں

انگشتری میں جیسے نگینہ ہے بیچ میں

کم ظرف نے طلب کی نبوت کی جب دلیل
ٹکڑے قمر ہوا تو لعیں ہوگیا ذلیل
ہے پر شکن جبین پسینہ ہے بیچ میں

ہاں روضہ کی پانے کو اک جھلک
آتے ہیں آسمان سے شام و سحر ملک
تا عرش و فرش نور کا زینہ ہے بیچ میں

توہینِ شاہِ دین کی آفت ہے ہر طرف
اللہ المدد کہ مصیبت ہے ہر طرف
موجِ بلا ہے اور سفینہ ہے بیچ میں

من  زار قبری زارنی ہے قولِ مصطفی
 اےعاشقو چلو ہے کٹھن گرچہ راستہ
چلئے وفورِ شوق سکینہ ہے بیچ میں

مکہ کے سارے فرد و بشر مان جائیں گے
سرکارِ دو جہان پہ قربان جائیں گے
بوجہل بدنصیب کمینہ ہے بیچ میں

جنت کی دلفریب ہوا میں بھی مانگتا
خلدِ بریں کی رب سے دعا میں بھی مانگتا
پر کیا کروں کہ شہرِ مدینہ ہے بیچ میں

میں خود بھی کرتا سنبل و ریحاں کی آرزو
ہوتی مجھے بھی مشک کی عنبر کی جستجو
لیکن میرے نبی کا پسینہ ہے بیچ میں

امی لقب ہیں نوکِ زباں ہے بلا کی بات
مطلب ہے صاف بات ہے ان کی خدا کی بات
جو رب نے عقل دی وہ قرینہ ہے بیچ میں

سینے ہیں عشق سیدِ والا ہے اس قدر
دیکھے جو کھول کر کوئی آئیگا یہ نظر
جیسے محبتوں کا خزینہ ہے بیچ میں

بوبکرہیں عمر ہیں غنی ہیں علی ہیں ساتھ
ممکن کہاں کہ پہونچیں  نبی تک عدو کے ہاتھ
ان چار جاں نثار کا سینہ ہے بیچ میں

اللہ کے رسول ہیں تجھ کو بھی ہے یقیں
اے بولہب نبی پہ تجھے کوئی شک نہیں
تیرا عناد ہے ترا کینہ ہے بیچ میں

فرقت کے غم کچھ اور نذیریؔ کے بڑھ گئے
رنج و الم کچھ اور نذیریؔ کے بڑھ گئے
یاد آگیا کہ حج کا مہینہ ہے بیچ میں

کوئی تبصرے نہیں: