غزل
میرے یاروں نے قصیدے مرے دہرائے ہیں
دل پہ کچھ پھر سے نئے زخم ابھر آئے ہیں
نارسائی کا فقط تجھ پہ ہی الزام نہیں
زندگی ہم بھی تجھے دیکھ کے کترائے ہیں
زہد و تقوی کا فسوں جان گئے ہیں ہم بھی
حضرت شیخ کی محفل سے ابھی آئے ہیں
میں امیری کے دکھاوے میں لگا ہوں لیکن
حال بے حال ہے بھوکے مرے ہمسائے ہیں
جون ہو یا کہ دسمبر ہو پتہ موسم کا
پوچھئے ان سے جو حالات کے ٹھکرائے ہیں
مجھ کو لگتا ہے نیا وقت ہے آنے والا
گیت آزادی کے بچوں نے ابھی گائے ہیں
کون سی جنگ میں الجھی ہے یہ دنیا آخر
بے گنہ سہمے ہیں معصوم بھی گھبرائے ہیں
دوستی امن سکوں پیار اخوت چاہت
آج کے دور میں نایاب یہ سرمائے ہیں
دور حاضر کے جو منصف ہیں نذیری دیکھیں
اب کے کیا تیر وہ ترکش میں نئے لائے ہیں
3 تبصرے:
بہت خوب
یھاں بھی آگئے
Very Nice Keep it Up
ایک تبصرہ شائع کریں