23 اگست، 2016

میرے یاروں نے قصیدے مرے دہرائے ہیں



غزل
میرے یاروں نے قصیدے مرے دہرائے ہیں 
دل پہ کچھ پھر سے نئے زخم ابھر آئے ہیں
نارسائی کا فقط تجھ پہ ہی الزام نہیں
زندگی ہم بھی تجھے دیکھ کے کترائے ہیں
زہد و تقوی کا فسوں جان گئے ہیں ہم بھی 
حضرت شیخ کی محفل سے ابھی آئے ہیں
میں امیری کے دکھاوے میں لگا ہوں لیکن 
حال بے حال ہے بھوکے مرے ہمسائے ہیں
جون ہو یا کہ دسمبر ہو پتہ موسم کا
پوچھئے ان سے جو حالات کے ٹھکرائے ہیں
مجھ کو لگتا ہے نیا وقت ہے آنے والا
گیت آزادی کے بچوں نے ابھی گائے ہیں
کون سی جنگ میں الجھی ہے یہ دنیا آخر
بے گنہ سہمے ہیں معصوم بھی گھبرائے ہیں
دوستی امن سکوں پیار اخوت چاہت
آج کے دور میں نایاب یہ سرمائے ہیں
دور حاضر کے جو منصف ہیں نذیری دیکھیں 
اب کے کیا تیر وہ ترکش میں نئے لائے ہیں