4 ستمبر، 2016

چمن سے آج بھی رشتہ جڑا ہے کیا سمجھے


غزل

چمن سے آج بھی رشتہ جڑا ہے کیا سمجھے
مرے بھی نام کا اک گل کھلا ہے کیا سمجھے

عطا کیا ہے جسے میں نے بولنے کا ہنر
وہ شخص مجھ سے یہی پوچھتا ہے کیا سمجھے

یہ ظلم بند نہیں ہوگا حشر ہونے تک
ہر ایک شخص یہاں پر خدا ہے کیا سمجھے

یہ حادثات بھی کترا کے مجھ سے چلتے ہیں
یہ میرے باپ کی پیہم دعا ہے کیا سمجھے

سروں پہ باپ کا سایہ بہت غنیمت ہے
شجر شجر ہے اگر چہ جھکا ہے کیا سمجھے

جو مجھ کو چھوڑ گیا تھا کئی برس پہلے
وہ شخص آج مجھے ڈھونڈھتا ہے کیا سمجھے

میں مانتا ہوں کہ تم چشم دید ہو لیکن
امیرِ شہر کا بیٹا بجا ہے کیا سمجھے

بس ایک بار حقیقت نکل گئی لب سے
وہ آج تک میرے پیچھے پڑا ہے کیا سمجھے

میں ڈوب جاؤں نہ تاویل اور
جناب شیخ سے پالا پڑا ہے کیا سمجھے

گنواکے عمر نذیری نے جس کو پایا تھا
وہی سراغ کہیں کھوگیا ہے کیا سمجھے

کوئی تبصرے نہیں: