مرے بھی نام کا اک گل کھلا ہے کیا سمجھے
عطا کیا ہے جسے میں نے بولنے کا ہنر
وہ شخص مجھ سے یہی پوچھتا ہے کیا سمجھے
یہ ظلم بند نہیں ہوگا حشر ہونے تک
ہر ایک شخص یہاں پر خدا ہے کیا سمجھے
یہ حادثات بھی کترا کے مجھ سے چلتے ہیں
یہ میرے باپ کی پیہم دعا ہے کیا سمجھے
سروں پہ باپ کا سایہ بہت غنیمت ہے
شجر شجر ہے اگر چہ جھکا ہے کیا سمجھے
جو مجھ کو چھوڑ گیا تھا کئی برس پہلے
وہ شخص آج مجھے ڈھونڈھتا ہے کیا سمجھے
میں مانتا ہوں کہ تم چشم دید ہو لیکن
امیرِ شہر کا بیٹا بجا ہے کیا سمجھے
بس ایک بار حقیقت نکل گئی لب سے
وہ آج تک میرے پیچھے پڑا ہے کیا سمجھے
میں ڈوب جاؤں نہ تاویل اور
جناب شیخ سے پالا پڑا ہے کیا سمجھے
گنواکے عمر نذیری نے جس کو پایا تھا
وہی سراغ کہیں کھوگیا ہے کیا سمجھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں