8 ستمبر، 2016

بيباک کوئی شہر میں عالم نہیں رہا


غزل

بيباک کوئی شہر میں عالم نہیں رہا
پھر راہ اعتدال پہ حاکم نہیں رہا

اب کیا کوئی قیام کرے کیا رکے کوئی
موسم تمہارے شہر کا رم جھم نہیں رہا

وہ ہم کو کیا سکھائیگا رستے اصول کے
خود اپنى ذات  کا وہ معلم نہیں رہا

دولت کا ایسا رنگ تھا سب رنگ چھپ گئے
سب پارسا رہے کوئی بھی مجرم نہیں رہا

جو اپنے دل کو توڑ کے اوروں کا جوڑ دے
لوگو دیارِ دل کا وہ حاتم نہیں رہا

جب جنگ بندیوں کا نہیں اس کو کچھ بھرم
اپنی طرف سے امن  بھی لازم نہیں رہا

پہلے سی خو نہ ڈھونڈھئے صاحب جہان میں
کر کے خطا یہاں کوئی نادم نہیں رہا

یوں ان سے التماس نذیری نہ کیجئے
اب دل کو کوئی شوق مراسم نہیں رہا


کوئی تبصرے نہیں: