بيباک کوئی شہر میں عالم نہیں رہا
پھر راہ اعتدال پہ حاکم نہیں رہا
اب کیا کوئی قیام کرے کیا رکے کوئی
موسم تمہارے شہر کا رم جھم نہیں رہا
وہ ہم کو کیا سکھائیگا رستے اصول کے
خود اپنى ذات کا وہ معلم نہیں رہا
دولت کا ایسا رنگ تھا سب رنگ چھپ گئے
سب پارسا رہے کوئی بھی مجرم نہیں رہا
جو اپنے دل کو توڑ کے اوروں کا جوڑ دے
لوگو دیارِ دل کا وہ حاتم نہیں رہا
جب جنگ بندیوں کا نہیں اس کو کچھ بھرم
اپنی طرف سے امن بھی لازم نہیں رہا
پہلے سی خو نہ ڈھونڈھئے صاحب جہان میں
کر کے خطا یہاں کوئی نادم نہیں رہا
یوں ان سے التماس نذیری نہ کیجئے
اب دل کو کوئی شوق مراسم نہیں رہا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں