8 ستمبر، 2016

دشمن تمہارے جال پہ ہم رقص کر گئے

غزل


دشمن تمہارے جال پہ ہم رقص کر گئے
ہر پر فریب چال پہ ہم رقص کر گئے

کیا پوچھنا ہے پوچھئے کہہ کر چلے گئے

اس عرصہ سوال پہ ہم رقص کر گئے

آئیں گے اور نور بکھر جائیگا یہاں

اتنے حسیں خیال پہ ہم رقص کرگئے

آزاد کیا ہوئے کہ ہوا ہی بدل گئی

اہل چمن کے حال پہ ہم رقص کر گئے

شرم حیا کی سر پہ ردا ہی نہیں رہی

تہذیب کے زوال پہ ہم رقص کر گئے

ممکن ہے اذنِ دید نذیری ہمیں بھی ہو

اتنے سے احتمال پہ ہم رقص کرگئے

کوئی تبصرے نہیں: