غزل
دشمن تمہارے جال پہ ہم رقص کر گئے
ہر پر فریب چال پہ ہم رقص کر گئے
کیا پوچھنا ہے پوچھئے کہہ کر چلے گئے
اس عرصہ سوال پہ ہم رقص کر گئے
آئیں گے اور نور بکھر جائیگا یہاں
اتنے حسیں خیال پہ ہم رقص کرگئے
آزاد کیا ہوئے کہ ہوا ہی بدل گئی
اہل چمن کے حال پہ ہم رقص کر گئے
شرم حیا کی سر پہ ردا ہی نہیں رہی
تہذیب کے زوال پہ ہم رقص کر گئے
ممکن ہے اذنِ دید نذیری ہمیں بھی ہو
اتنے سے احتمال پہ ہم رقص کرگئے
دشمن تمہارے جال پہ ہم رقص کر گئے
ہر پر فریب چال پہ ہم رقص کر گئے
کیا پوچھنا ہے پوچھئے کہہ کر چلے گئے
اس عرصہ سوال پہ ہم رقص کر گئے
آئیں گے اور نور بکھر جائیگا یہاں
اتنے حسیں خیال پہ ہم رقص کرگئے
آزاد کیا ہوئے کہ ہوا ہی بدل گئی
اہل چمن کے حال پہ ہم رقص کر گئے
شرم حیا کی سر پہ ردا ہی نہیں رہی
تہذیب کے زوال پہ ہم رقص کر گئے
ممکن ہے اذنِ دید نذیری ہمیں بھی ہو
اتنے سے احتمال پہ ہم رقص کرگئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں