غزل
رخِ حسیں سے ملے زلفِ عنبریں سے ملے
سکوں طلب ہوں سکوں چاہئے کہیں سے ملے
بھٹک رہا ہوں اندھیروں میں پھر بھی خواہش ہے
پتہ نصیب کا مجھ کو تیری جبیں سے ملے
جہاں پہ کھویا وہیں سے میں خود کا طالب ہوں
متاعِ عمر مجھے قلب کے مکیں سے ملے
غمِ حیات کے طوفاں کے ختم ہونے کا
کوئی اشارہ تیری چشمِ سرمگیں سے ملے
تباہ حال پریشان دل کی چاہت ہے
کوئی پیام لبِ شوخ و احمریں سے ملے
میری حیات کا مقصد فقط یہی ہے کہ بس
پتہ بہار کا میرے دلِ حزیں سے ملے
خدا کرے کہ نہ ٹوٹے یہ دوستی کا بھرم
وگرنہ سانپ ملے جو بھی آستیں سے ملے
رموزِ عشق نذیریؔ عجیب ہوتے ہیں
یہاں پہ معنی ٔ اقرار بھی نہیں سے ملے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں