25 ستمبر، 2016

جب تیری یاد ستائے تو غزل ہوتی ہے

غزل

جب تیری یاد ستائے تو غزل ہوتی ہے 
کوئی رُت مجھ کو رلائے تو غزل ہوتی ہے 

لاکھ کوشش کرے سونیکی شبِ فرقت میں 
اور پھر نیند نہ آئے تو غزل ہوتی ہے

میرے اطراف میں رنگینیاں بکھری ہوں مگر
مجھ کو جب کچھ بھی نہ بھائے تو غزل ہوتی ہے

میں اگر بزم تصور کو سجائے بیٹھوں
تو میری بزم میں آئے توغزل ہوتی ہے 

سنگ مرمر سے بدن جھیل سی آنکھوں کی قسم
تو جو آنکھوں سے پلائے تو غزل ہوتی ہے 

رکھ کے زانوں پہ میرا سر کرے کوشش کوئی
اور مجھے نیند نہ آئے تو غزل ہوتی ہے 

نام تو اور بھی میں سوچوں نذیریؔ لیکن
یاد جب ایک ہی آئے تو غزل ہو تی ہے 

کوئی تبصرے نہیں: