25 ستمبر، 2016

محبوبِ کبریا شہِ ابرار کو سلام

نعتِ رسول
 صلی اللہ علیہ وسلم

محبوبِ کبریا شہِ ابرار کو سلام
دین خدا کے قافلہ سارلار کو سلام

جو تاجدار بن کے رہا بوریہ نشیں
اس دو جہاں کے والی و سردار کو سلام

محفل کی جان جس کا پسینہ بنا رہے
قربان ایسے جسم کو مہکار کو سلام

کفار کشمکش میں ہیں الزام دیں تو کیا؟
الصادق الامین کے کردار کو سلام

اک پل میں ہو مکاں سے سفر لامکان تک
رفتار کو سلام ہے رہوار کو سلام

یا رب امتی کی سرِ حشر دے صدا
امت کے ایسے مونس و غمخوار کو سلام

ہر ایک پھول ارضِ مدینہ بہشت کا 
جھک کرکے کرہا ہے تیرے خوار کو سلام

ہم مثل کیسے ہوسکے صدیق کا کوئی
خود آرہا ہے عرش سے جس یار کو سلام

اٹھّی رہِ جدا میں تو اٹھّی ہی رہ گئی
فاروقِ باوقار کی تلوار کو سلام

یہ مرتبہ کہ صاحبِ نورین بن گئے
عثماں غنی کو صاحبِ ایثار کو سلام

آئیں تو سورماؤں کے دل کانپنے لگیں 
شیرِ خدا کو حیدرِ کرار کو سلام 

وہ جن کے خوں سے دین کا پوا ہرا ہوا
حضرت بلال و یاسر و عمار کو سلام

منظر ٹھہر گیا تھا نذیریؔ زہِ نصیب
شہرِ رسولِ پاک کے دیدار کو سلام

کوئی تبصرے نہیں: